نیپال میں عربی مدارس پر حکومت کا رویہ اور ہماری ذمہ داریاں

■ نيپال میں عربی مدارس پر حکومت کا رویہ اور ہماری ذمہ داریاں ■
[✒:  صفی اللہ محمد الانصاری ]
--------------------------------------------------
■ ملک نیپال ایک طویل عرصے سے نظام ملوکیت اور کنگڈم سسٹم سے جانا جاتا تھا جو بہت ہی پرامن اور پیسفل ملکوں میں شمار ہوتا تھا مگر ہر کسی کو اپنی بات رکھنے اور مطالبات کا کلی حق نہیں تھا بالخصوص مسلمان بہت سارے حقوق سے محروم تھے ۔لیکن اب ملک نیپال سنہ 2008 سے ایک جمہوری، فیڈرل، ڈیموکریٹک اور لوکتانترک ملک میں تبدیل ہو چکا ہے جسمیں نئے دستور اور آئین کے مطابق ہر شہری اور سیٹیجن کو یکساں حقوق حاصل ہیں ہر کسی کو اپنے مذھب ، کلچر، زبان اور تعلیم کی پوری آزادی ہے ۔

■ مگر افسوس کہ ہمارے  عربی مدارس و جامعات اور دینی و تعلیمی معاہد و مراکز حکومت کیطرف سے مکمل مظلومیت و محرومیت کے شکار ہیں ۔ وہاں کے اسناد و سرٹیفکیٹ اور شہادات و ڈگریوں کی کوئی اہمیت نہیں کوئی ویلیو اور قیمت نہیں نہ تو ہم انہیں توثیق و اٹیسٹ کروا سکتے ہیں اور نہ ہی معادلہ اور Equivalent اور نہ ہی اسکے بیس پر ہمیں کوئی نوکری اور سروس ملنےوالی ہے اور حد تو یہ ہے کہ باہر کسی اور ملک میں جاکر اعلی تعلیم کے حصول کیلئے NOC بھی نہیں دی جاتی ہے بھلا بتائیے اس سے بڑی محرومیت و مظلومیت اور کیا ہو سکتی ہے؟ ۔ 

■ جبکہ ہمارے مدارس و جامعات میں حتی المقدور کوشس کیجاتی ہے کہ اچھی سے اچھی تعلیم و تربیت ہو ، اچھا سے اچھا نظام اور سسٹم ہو ، عمدہ سے عمدہ معیار اور سٹینڈرڈ ہو  اور کورسیس کی تکمیل پر  سرٹیفکیٹ اور ڈگریاں دی جائیں اور الحمد لله کافی حد تک ایسا ہوتا بھی ہے ۔ واضح رہے کہ اسناد و شہادات طلبہ کیلئے علمی دلائل اور ایجوکیشنل پروف ہوا کرتے ہیں  مگر ایسے دلائل کا کیا فائدہ جو غیر مستند و غیر مقبول ہوں - 

■ ذرا غور کریں کہ ایک مزدور کو اسکی مزدوری تو دی جائے مگر مزدوری میں ملنے والے نوٹ جعلی ہوں اور اسکے سارے سکے کھوٹے ہوں جنکی دوکان اور مارکیٹ میں کوئی قیمت نہ ہو دوکاندار یہ کہکر معذرت کردے کہ sorry بھائی آپکے نوٹ جعلی اور آڑٹفیشیل ہیں اور ضد کرنے کی صورت میں دھکے دیکر دوکان سے باہر کردے تو ایسی حالت میں اس مزدور آدمی پر کیا گزریگی ، اسے کیا احساس ہوگا اور کیسا Feel ہوگا اسکا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں ۔
■تو یہی مثال ہماری ڈگریوں کی ہے جسکی سرکاری سطح پر کوئی ویلیو اور اہمیت نہیں، کوئی Equality اور کوئی Level نہیں ۔ کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟ کیا ہمیں اپنے سمبیدھانک اور  constitutional rights  کے مطالبے کا حق نہیں ہے؟ کیا ہمیں عربک بورڈ اور یونیورسٹی کی ضرورت نہیں ہے ؟ کیا ہمیں نیپال کی ٹاپ یونیورسٹیوں میں عربک ڈیپارٹمنس کے قیام اور اسمیں جابس کی قطعا حاجت نہیں ہے ؟ آخر کب تک ہمیں اجنبی ہی سمجھا جائیگا ؟ کب تک ہمیں بیوقوف بنایا جائیگا ؟ کب تک ہمارے جذبات سے کھلواڑ کیا جائیگا؟  کب تک ہمارے فیوچر اور مستقبل کو برباد کیا جائیگا؟ 

■ آئیے ہم ایک ہوکر حکومت وقت سے آنکھ میں آنکھ ملا کر اپنے حقوق کا مطالبہ کریں ، کچھ سوچیں کچھ فکر کریں اور کوئی مثبت اور ٹھوس قدم اٹھائیں کیونکہ جو قوم فکر وعمل سے عاری ہوتی ہے اس سے اسکا مستقبل ہمیشہ ہمیش کیلئے سلب کر لیا جاتا ہے ۔ ممکن ہے بہت سارے لوگ اس سلسلے میں فکر مند ہوں اور جدو جہد بھی کر رہے ہوں مگر اس پر کافی محنت درکار ہے بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے تب جاکر ہمارا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے ۔

■ قابل مبارک ہیں جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگرکے کچھ حساس و غیور ذمہ داران جو ان مسائل اور ایشوز پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور اپنے مطالبات کیلئے پیشکش بھی کر چکے ہیں مگر معاملہ اتنی آسانی سے حل ہونے والا نہیں ہے۔
محترم قارئین! حالیہ ایام  ملک کے ہر خطے میں الیکشن کا ماحول شباب پر ہے ہر طرف گرما گرمی چل رہی ہے کوئی ووٹ کے نام پر اپنا ایمان فروخت کررہا ہے تو کوئی خود کی روٹی سینکنے میں لگا ہوا ہے اور کوئی ذاتی مفاد کے چکر میں منافقانہ رویہ اپنا رہا ہے غرضیکہ ملک کے ہر چہار جانب معاملات ہاٹلائن پر ہیں  ۔

■ ایسے میں قوم و ملت کے غیور اور حساس لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جہاں ہم بہت سارے مسائل کے حل اور مطالبات کی کوشش کریں وہیں ہمارا بنیادی اور اولیں  Focus  یہ بھی ہونا چاہئے کہ ہم مذکورہ تمام ایشوز پر اپنی بات رکھیں اور ایسے لیڈروں کا انتخاب کریں جنکے اندر قوم کا درد ہو،  ملت کے مسائل کا حل موجود ہو ، تعلیمی ، اصلاحی ، سماجی اور ترقی کے پہلو پر کام کرنے کا ہنر معلوم ہو ۔
■ محترم قارئین ! معاملہ بہت سنگین ہے،  مسئلہ بہت تشویشناک ہے ، موضوع کافی غور طلب ہے اور ایشوز بہت پیچیدہ اور کمپلیکیٹس ہیں ، شاید میری تحریر سے کسی کو اختلاف ہو مگر بہتوں کے دل کی آواز بھی ہو سکتی ہے ۔
■ میں بہت ہی ادب واحترام اور متواضع طریقے سے التماس کرنا چاہونگا قوم کے ان غیور علماء کرام ، دانشوراں ملت، مسلم اور ایجوکیشنل کمیونٹیز اور  منتظمین مدارس و جامعات سے جنکے اندر طلبہ مدارس کے مستقبل کی فکر اور انکے موجودہ مشاکل کا احساس ہے، پلیز اللہ کے واسطے آپ آگے بڑھیں ،کوئی مثبت قدم اٹھائیں اور کوئی مناسب حل نکالیں تاکہ ہم کسی نتیجے پر پہونچ سکیں۔ 08/11/2017

Comments

Popular posts from this blog

نیپالی زبان اور مدارس اسلامیہ

نیپال میں بدھسٹ یونیورسٹی کا قیام اور اسلامک یونیورسٹی سے چشم پوشی

ترجمه مختصرة