نیپال میں بدھسٹ یونیورسٹی کا قیام اور اسلامک یونیورسٹی سے چشم پوشی

■ نیپال میں بدھسٹ یونیورسٹی کا قیام اور اسلامک یونیورسٹی سے چشم پوشی ۔ایک تحقیقی جائزہ ■

[✒:  صفی اللہ محمد رضا الانصاری]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
■ نیپال مختلف ادیان و مذاہب، الگ الگ تہذیب و ثقافت اور ملٹی کلچرل پر مشتمل ایک جمہوری اور سیکولر اسٹیٹ ہے جسمیں نئے دستور اور آئین کے مطابق تمام شہریوں کے مساویانہ حقوق ہیں ہر ناگرک اپنے دین و مذہب، تہذیب و ثقافت، خیالات و اکسپریشن ،درس و تدریس اور تعلیم و ہنر کیلئے آزاد ہے ، حکومتی سطح پر قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اسے عمل اور پریکٹس کرنے کا کلی حق حاصل ہے۔
■ حصول تعلیم کیلئے عموما نیپال کے سرکاری یونیورسٹیوں ، کالجوں، معاہد و مراکز اور اسکولس وغیرہ میں ہر شہری خواہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو تعلیم حاصل کر سکتا ہے کسی ایک قوم و مذہب کیلئے مختص نہیں ہے بشرطیکہ تمام شرائط و ضوابط، رولس اور ریگولیشن پائے جاتے ہوں ۔
■ مگر جب ہم ملک پر عمیقانہ نظر ڈالتے ہیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کرتے کہ کیا خصوصی طور پر کسی مذہب اور طبقہ کا اپنی الگ یونیورسٹی، کالج، معہد و مرکز کیامپس اور اسکولس وغیرہ ہیں جنہیں سرکاری سطح پر منظوری حاصل ہے؟ حکومتی لیول پر اسناد و ڈگریاں معترف بہا اور Recognized ہیں؟ اور دوسری ٹاپ یونیورسٹیوں سے معادلہ اور Affiliated ہیں؟ تو ایک اقلیتی طبقہ نظر آتا ہے جسے ہم بڈھسٹ کے نام سے جانتے ہیں ۔
■ محترم قارئین! آپکو معلوم ہونا چاہئے کہ نیپال میں بدھسٹوں کے اپنے الگ یونیورسٹی اور اسکے تابع کئی کالج وکیامپس ہیں جنہیں سرکاری دسترس اور مالی تعاون و مساہمت حاصل ہے وہ بہت ہی اونچے پیمانے اور ہائی لیول پر اپنے مذہب کی بقاء و تحفظ ،تشہیر و تنفیذ اور نشرو اشاعت کیلئے تحقیق و ریسرچ کر رہے ہیں آئیے ہم جائزہ لیتے ہیں لمبنی میں بدھسٹ یونیورسٹی کے قیام اور پس منظر کا ۔
■ چونکہ لمبنی بدھ مذہب کے عقیدےکے مطابق انکے رہنما "گوتم بدھ" کی جائے پیدائش ہے اسی لئے پوری دنیا سے عقیدتا لوگ جوق در جوق آتے ہیں اور درشن کرتے ہیں۔ اس مذہب کی مزید ترویج اشاعت اور مرکزی حیثیت دینے کیلئے سنہ 1994 میں " لمبنی ڈیولپمنٹ ٹرسٹ " کے زیر اشراف ایک عالمی کانفرنس منعقد کیا گیا جسمیں قرارداد پاس ہوئی کہ لمبنی میں ایک سنٹرل عالمی بدھسٹ یونیورسٹی قائم کیجائے جسکے ذریعہ بدھ مذہب کی تعلیم و ثقافت، تھیوری و آئیڈیالوجی اور منطق وفلسفہ کو فروغ دیا جائے اور پورے نیپال بلکہ پوری دنیا میں اثر ورسوخ ڈالا جائے بالخصوص لمبنی علاقے پر غلبہ اور تسلط حاصل کیا جائے جسے آج ہم اپنی نظروں سے بخوبی مشاہدہ کر رہے ہیں اسکے باوجود اپنی زمین و پراپرٹی فروخت پہ فروخت کئے جارہے ہیں اور انکے مشن کومزید تقویت دے رہے ہیں اللہ خیر کرے۔
■ بہرکیف اس مشن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے 7 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جسمیں کنوینر کے طور پر پروفیسر ڈاکٹر "تلشی رام ودیا " کو منتخب کیا گیا اور فوری کاروائی کیلئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا چنانچہ جگہ جگہ پروگرام، میٹنگ اور پبلک اسٹیج پر وزیر ثقافت و کلچر اور دیگر اہم ممبران و پارلیمینٹیرین بالخصوص بھرت شاہ کی موجودگی میں اسکی اہمیت و ضرورت پر زور ڈالا گیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا یہانتک کہ سنہ2004 میں انکا دیرینہ خواب " لمبنی بڈھسٹ انٹرنیشنل یونیورسٹی " کے شکل میں شرمندہ تعبیر ہوا ۔
■ محترم قارئین! واضح رہے کہ اس پلاننگ کی فہرست بہت طویل ہے، نیشنل اور انٹرنیشنل طور پر اسے کافی دعم و مساندت اور Financial support حاصل ہے ۔
اس یونیورسٹی میں بدھسٹ اسٹڈیز پر پی -ایچ- ڈی تک کی تعلیم ہوتی ہے اور وہاں سے تمام مراحل (ڈپلومہ، بیچلر،ماسٹر اور ڈاکٹریٹ) کی ڈگریاں فراہم کی جاتی ہیں اور اسکے تحت چلنے والے کئی سارے ادارے اور مراکز بھی ہیں جو نیپال کے مختلف اہم علاقوں میں موجود ہیں جنکی مختصر فہرست درج ذیل ہے :

■ لمبنی کالج آف بدھیزم اینڈ ہمالین اسٹڈیز
■ لوٹس اکاڈمک کالج
■ سوغات بودھا مہاویدیالئے
■ بودھا ملٹیپل کیامپس
■ تھیراوا بدھسٹ اکیڈیمی
■ سووا ریگپا انٹرنیشنل کالج
■ جیری بدھسٹ کالج
■ لمبنی انٹرنیشنل اکیڈیمی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی

■ اسکے علاوہ اور بہت سے معاہد و مراکز ، برانچیز اور سنٹرس کے جال بچھے ہوئے ہیں جنکی تفصیل وطوالت کا یہاں موقع نہیں ہے البتہ یہ جان لیں کہ کاٹمانڈو یونیورسٹی میں بدھسٹ اسٹڈیز کا خصوصی اہتمام ہے-
عام طور پر ہم یہ سمجھتےہیں کہ نیپال میں انکی تعداد بہت کم ہے اور جو لمبنی میں لاما کی شکل میں نظر آرہے ہیں وہ سب بیرون ممالک سے تعلق رکھتے ہیں مگر ایسا بالکل نہیں ہے ، 2011 کی سرکاری Census اور احصائیات کے مطابق انکی تعداد 9% فیصد ہے یعنی مسلمانوں سے دوگنی آبادی ۔ اب آپ پوری ہسٹری ، پس منظر اور بیک گراونڈ پر نظر ڈالئے اور نتیجہ نکال لیجئے کہ کس پلاننگ کے تحت کام ہو رہا ہے ۔

■ میرے بھائی! ملک کے حالات اور سیاست پر گہری نظر رکھنا اور اپنے حقوق کے لئے مستقل محنت اور Struggle کرنا بہت ضروری ہے ورنہ برما وسریلانکا جیسے حالات پیدا ہونے میں دیر نہیں لگتے ۔

■ قارئین کرام ! یہ تو تھی نیپال میں بدھسٹ کمیونٹی کے تعلیمی مراکز ، اہداف و مشن اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر انکی دسترس اور ترابط کی سرسری جھلک۔
اسکے ساتھ ہی جب ہم نیپال میں عیسائی اور کرسچین کمیونٹی پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انکے بھی کالج و کیامپس اور اسکولس وغیرہ سرکاری منظور شدہ ہیں اور کافی تعداد میں موجود ہیں جبکہ انکی فیصد صرف 1،4 ہے یعنی کہ مسلمانوں سے کہیں زیادہ کم ۔ رہا ہندووں کا معاملہ تو انکے لئے تو تقریبا ہر یونیورسٹی میں ہندو اور ریلیجیس تھیولوجی کا ڈیپارٹمنٹ موجود ہے ۔ مگر یہاں سوال ہے ہماری مسلم کمیونٹی کا ، کیا انکے لئے بھی کوئی اسطرح کی سرکاری سہولیات مہیا ہیں؟ جوابا کہنا پڑ رہا ہے نہیں نہیں ہرگز نہیں ۔

■ ویسے الحمد للہ ہمارے یہاں بھی مساجد و مدارس ،معاہد و مراکز اور کلیات و جامعات کی کمی نہیں ہے مگر مسئلہ وہی ہیکہ ایک بھی ادارہ ایسا نہیں ہے جسکی سرکاری لیول پر کوئی اہمیت و حیثیت ہو، جسکے سرٹیفکیٹ اور ڈگریوں کی کوئی ویلیو اور ڈیمانڈ ہو، جسکی Equality اور Equivalent ہو سوائے بعض ابتدائی درجات کے ۔

■ قارئیں! غور طلب امر یہ ہیکہ آخر ہم ہی کیوں سب سے backward ہیں؟ ہماری پہچان اور Identification کیوں سب سے تھرڈ کلاس کی ہے ؟ کیوں ہماری اپنی ہائیر ایجوکیشن اور بحث و ریسرچ کیلئے کوئی یونیورسٹی نہیں ہے ؟ ارے یہ تو سعودیہ عربیہ اور انڈیا کی کرم فرمائی اور بڑکپن ہے کہ اپنے یونیورسٹیوں میں ہمیں جگہ دے رکھا ہے ورنہ ہم تو اپنے ہی وطن میں اجنبی بنے ہوئے ہیں!!!
کیا یہ ہمارے اوپر ظلم و زیادتی نہیں ہے؟ کیا ہمارے سمبدہانک اور آئینی حقوق کی پامالی نہیں ہے؟ آخر کیوں ہم اس بارے میں کوشش نہیں کرتے؟ کیا ہمیں اسکی قطعا ضرورت نہیں ہے ؟ آخر اسکا حل کیا ہے ؟ اسکے اسباب و وجوہات کیا ہیں؟
■ اس سلسلے میں میرے ناقص علم اور تحقیق وفکر کی روشنی میں دو اہم اسباب نظر آتے ہیں ایک تو یہی کہ حکومت کی طرف سے ہمیں مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے اور دوسرے اینکہ ہماری مسلم کمیونٹی نے خود ہی دلچسپی نہیں لیا اور پوری جدیت کیساتھ مسلسل جدو جہد، محنت اور کوشش نہیں کیا ۔مگر مطلقا ایسا کہنا غلط ہوگا کیونکہ نیپال پہلے ہندو راشٹریہ اور کنگڈم تھا اسلئے حکمت و مصلحت کے پیش نظر شاید اس موضوع پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا کہ کہیں حکومت ہمارے مدارس میں انٹرفیئر نہ کرے اور اپنے تھیوری و آئیڈیالوجی کو impose نہ کرے ۔
■ مگر اب جبکہ ملک جمہوریت اور ڈیموکریسی کی طرف رواں دواں ہے اسلئے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اور وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے 8 مئی 2016م کو جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر کے زیر اشراف کاٹھمنڈو میں " مدارس اسلامیہ کے تحدیات و چیلنج اور اسکا حل" کے عنوان پر ایک اہم علمی کانفرنس کا انعقاد ہوا جسمیں جامعہ کے اساتذہ و ذمہ دارن ، ملک کے کبار علماء و دانشوران، مختلف وزراء و سانسد ، سیاسی زعماء و لیڈران اور عرب ممالک کے کئی ایمبیسیڈرس وغیرہ نے شرکت کیا تمام مسائل اور ایشوز پر مباحث و مذاکرات ہوئے بالخصوص جامعہ سراج العلوم کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کی مانگ کی گئی ۔بہرکیف وزراء و سانسد نے اس معاملے کو آگے بڑھانے اور Seriously action لینے کے لئے وعدے کئے مگر ابتک کوئی رزلٹ سامنے نہیں آیا ، اس سے مسلمانوں کے تئیں انکی ذہنیت اور Mindset کا صاف پتہ چلتا ہے ۔

■ خلاصہ کلام اینکہ وجوہات جو بھی ہوں مگر ہر محاظ پر مسلم کمیونٹی ہی کو ٹارگٹ کیا گیا ہے اور سب سے پسماندہ و بیک ورڈ رکھا گیا ہے اگر یہی سلسلہ چلتا رہا اور ہم خواب غفلت کی چادر میں لپٹے رہے اور ہوش کے ناخن نہ لئے تو ہماری پہچان اور تشخص تک مٹا دیاجائیگا اسکا اندازہ آپ صرف اعداد و شمار ہی سے لگا لیجئے کہ ابھی تک مسلمانوں کی تعداد سرکاری آکڑے کے حساب سے 4.4% ہی فیصد ہے جبکہ معاملہ اسکے برعکس ہے -
■ کیا ہی اچھا ہوتا کہ "نیپال مسلم کمیشن" خود ہی اس کام کو انجام دیتا اور مسلمانوں کی صحیح تعداد سرکاری دفتر میں پیش کرتا مگر کسکو پڑی ہے! اپنا کام چلتا رہے قوم و ملت بھاڑ میں جائے! کہنے کا مطلب یہ ہیکہ تمام مسائل و ایشوز پر ارباب حل و عقد کو متانت و سنجیدگی سے سوچنا ہوگا ،اپنے مطالبات کیلئے مثبت اور تعمیری فکر لیکر آگے بڑھنا ہوگا اور اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہوگا تب جاکر کسی نتیجے پر پہونچ سکتے ہیں ۔

■ آخری بات : رہا مسئلہ کہ اسکی شروعات کیسے ہو کونسے آئیڈیاز اور طریقہ کار اپنائے جائیں اسکے لئے کیا اجراءات اور Procedures ہیں کن مواد اور مقررات کی ضرورت ہے تو اس سلسلے میں اگر میں کچھ کہوں تو چھوٹا منہ بڑی بات ہوگی اسکے لئے الحمد للہ ہمارے یہاں اچھے خاصے پڑھے لکھے ،بڑے بڑے Genius و عبقری شخصیتیں ، مفکرین و دانشوران، قائدین عمائدین، Intelligents اور Intellectuals کی ایک طویل فہرست موجودہ ہے وہ بخوبی اس کام کو انجام دے سکتے ہیں۔
■ بس میں اتنا کہونگا کہ آئیے ہم سب ملکر اپنے حقوق اور روشن مستقبل کیلئے بیک آواز ہوکر آگے بڑھیں اور ملک میں اپنا ایک مقام پیدا کریں ، علامہ اقبال کے اس حوصلہ کن پیغام کیساتھ کہ :
مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں ملکر گل گلزار ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

نیپالی زبان اور مدارس اسلامیہ

ترجمه مختصرة