نیپال میں قادیانیت کا بڑھتا ہوا قدم
نیپال میں قادیانیت کا بڑھتا ہوا قدم
------------------------------------------
نیپال میں قادیانیت کی سرگرمیوں کے تعلق سے ابھی گزشتہ کل سوشل میڈیا کے ذریعہ شیخ عبد المنان سلفی حفظہ اللہ کی ایک گرانقدر تحریر نظر سے گزری جس میں انھوں نے ذکر کیا ہے کہ پچھلے تین دہائیوں سے یہ اپنے گمراہ کن اور باطل عقائد و نظریات کے ساتھ نیپال میں قدم جمانے کی کوشش کر رہے ہیں اور سیدھے سادے اور غریب مسلمانوں کو پیسے کا لالچ دیکر ارتداد کے راستے پر لے جارہے ہیں ۔
شیخ نے مزید کہا کہ آج سے 20/25 برس پہلے نیپال کے مختلف علاقوں میں قادیانیت کافی سرگرم تھی جس پر بلا اختلاف مسلک مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر نے مشترکہ طور پر نوٹس لیا تھا۔ پھر قادیانیت نیپال میں زیر زمین ہو گئی تھی، شیخ نے قادیانیت پر ایک جامع مقالہ بھی لکھا تھا جسکو کتابی شکل دے دی گئی ہے اور لگ بھگ 100 صفحات پر مشتمل ہے مگر افسوس کہ کتاب ایک ہی بار طبع ہو پائی ہے جسے دوبارہ وافر مقدار میں چھپانے کی ضرورت ہے ۔
شیخ کی اس اہم کتاب کو جمعية السلام للخدمات الإنسانية بھیرہوا روپندیہی نیپال نے نیپالی زبان میں شیخ شریف تیمی حفظہ اللہ کے ذریعہ ترجمہ کروا کر بڑا مستحسن کام کیا ہے۔ اللہ مولف ، مترجم اور جمعیت کے ذمہ داران بالخصوص شيخ افضال احمد سلفي حفظہ اللہ کو جزائے خیر دے اور جملہ مساعئ جمیلہ کو قبول فرمائے اور کتاب کو قادیانیوں کی سرکوبی کا ذریعہ بنائے۔
ہمارے ایک روم پارٹنر شیخ ضیاء الرحمن سلفی بتا رہے ہیں کہ جامعہ سلفیہ سے نکلنے والا طلبہ کا سالانہ مجلہ " المنار" کے 1999 کے شمارے میں انکے کسی ساتھی نے "نیپال میں قادیانیوں کی سرگرمیاں" کے عنوان سے ایک مفصل مضمون لکھا تھا جوکہ قابل مطالعہ ہے ۔ اگر کسی بھائی کے پاس یہ نسخہ دستیاب ہو تو مجھے بھی ارسال کریں ۔
انھوں نے مزید کہا کہ 1993 میں ضلع پرسا کے کسی پسماندہ گاوں میں قادیانیوں نے پیسے کا جھانسا دیکر تین گھروں کو اپنے دام فریب میں کر لیا تھا اور تین نوجوانوں کو قادیان لے جانے کیلئے آمادہ بھی کر لیا تھا اور اس گاوں میں قادیانی مسجد بنانے کی پوری پلاننگ کر لی تھی اور صاحب زمین کو خاطر خواہ پیسہ دینے کی بات بھی طے ہوگئی تھی مگر بھلا ہو جمعیت اہلحدیث نیپال کا کہ مولانا محمد ہارون سلفی حفظہ اللہ کی کاوشیں رنگ لائیں انھوں نے مسجد بنوائی پھر قادیانیوں کو وہاں سے منہ کی کھانی پڑی۔ اسکے بعد دیوبندی حضرات نے ایک اجتماع منقعد کرکے ان تین گھروں کے افراد کو توبہ کروایا اور پھر سے کلمہ پڑھوایا ۔
اسی طرح سے ہمارے لمبنی علاقے میں بھی قادیانیوں نے پنجہ جمانے کی پرزور کوشس کی تھی مگر شیخ نسیم مدنی و دیگر علماء حفظہم اللہ کی غیر معمولی کاوشوں سے مکمل طور پر اس علاقے سے انکا صفایا ہوا۔ اللہ انھیں جزائے خیر دے۔
ابھی کچھ دنوں قبل فیس بوک پر عزیزم شمشاد عادل کا ایک پوسٹ نظر آیا جس میں انھوں نے فی الحال نیپال میں قادیانیت کے بڑھتے ہوئے قدم کو کچلنے کی اہل علم و قلم سے درخواست کی تھی۔ فجزاه الله خيرا۔
اسی دن سے میں نے نیپال میں قادیانیت کے تعلق سے مزید کچھ جاننے کی کوشش کی اور نیٹ پر سرچ کرنا شروع کیا تو مجھے Fleeing persecution, Ahmadi Muslims find safe haven in Nepal
کے نام سے ایک انگلش تحریر کاٹھمانڈو سے نکلنے والے انگلش جریدے " The Kathmandu Post" میں ملی جو 19 مئی 2019 میں شائع ہوئی تھی۔
اس پوسٹ کے مطابق تقریبا 1990 میں قادیانیت کا وجود نیپال میں ہوا اور انکی تنظیم "احمدیہ نیپال سنگھ" کے نام سے رجسٹرڈ بھی ہے اس تنظیم کا نمائندہ Sajeel Ghouri ہے جوکہ ٹویٹر وغیرہ پر بہت سرگرم ہے ۔ اسکا کہنا ہے کہ نیپال ہمارے لئے بہت سیف اور امن و امان کا مرکز ہے یہاں دھارمک اوتپیڑنا نہیں ہے ، یہ زیادہ تر پاکستان سے آئے ہیں اور اکثریت کاٹھمانڈو میں ہے جن میں ایک چوتھائی ریفیوجی کی حیثیت سے ہیں، جنکی تعداد 800 کے قریب ہے [ %0 .00008 ]۔
ایسے میں علماء و دعاة اور مسلم تنظموں کو چاہئے کہ اپنا کردار نمایا کرتے ہوئے میدان میں آئیں اور اس فتنے کو روکیں، حکمت عملی کیساتھ انکی مکمل سرکوبی کریں تاکہ سیدھے سادے ، غریب اور سادہ لوح مسلمانوں کو انکے فتنئہ ارتداد سے بچایاجا سکے۔ 06/07/2020
[صفي الله محمد الأنصاري]
------------------------------------------
نیپال میں قادیانیت کی سرگرمیوں کے تعلق سے ابھی گزشتہ کل سوشل میڈیا کے ذریعہ شیخ عبد المنان سلفی حفظہ اللہ کی ایک گرانقدر تحریر نظر سے گزری جس میں انھوں نے ذکر کیا ہے کہ پچھلے تین دہائیوں سے یہ اپنے گمراہ کن اور باطل عقائد و نظریات کے ساتھ نیپال میں قدم جمانے کی کوشش کر رہے ہیں اور سیدھے سادے اور غریب مسلمانوں کو پیسے کا لالچ دیکر ارتداد کے راستے پر لے جارہے ہیں ۔
شیخ نے مزید کہا کہ آج سے 20/25 برس پہلے نیپال کے مختلف علاقوں میں قادیانیت کافی سرگرم تھی جس پر بلا اختلاف مسلک مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر نے مشترکہ طور پر نوٹس لیا تھا۔ پھر قادیانیت نیپال میں زیر زمین ہو گئی تھی، شیخ نے قادیانیت پر ایک جامع مقالہ بھی لکھا تھا جسکو کتابی شکل دے دی گئی ہے اور لگ بھگ 100 صفحات پر مشتمل ہے مگر افسوس کہ کتاب ایک ہی بار طبع ہو پائی ہے جسے دوبارہ وافر مقدار میں چھپانے کی ضرورت ہے ۔
شیخ کی اس اہم کتاب کو جمعية السلام للخدمات الإنسانية بھیرہوا روپندیہی نیپال نے نیپالی زبان میں شیخ شریف تیمی حفظہ اللہ کے ذریعہ ترجمہ کروا کر بڑا مستحسن کام کیا ہے۔ اللہ مولف ، مترجم اور جمعیت کے ذمہ داران بالخصوص شيخ افضال احمد سلفي حفظہ اللہ کو جزائے خیر دے اور جملہ مساعئ جمیلہ کو قبول فرمائے اور کتاب کو قادیانیوں کی سرکوبی کا ذریعہ بنائے۔
ہمارے ایک روم پارٹنر شیخ ضیاء الرحمن سلفی بتا رہے ہیں کہ جامعہ سلفیہ سے نکلنے والا طلبہ کا سالانہ مجلہ " المنار" کے 1999 کے شمارے میں انکے کسی ساتھی نے "نیپال میں قادیانیوں کی سرگرمیاں" کے عنوان سے ایک مفصل مضمون لکھا تھا جوکہ قابل مطالعہ ہے ۔ اگر کسی بھائی کے پاس یہ نسخہ دستیاب ہو تو مجھے بھی ارسال کریں ۔
انھوں نے مزید کہا کہ 1993 میں ضلع پرسا کے کسی پسماندہ گاوں میں قادیانیوں نے پیسے کا جھانسا دیکر تین گھروں کو اپنے دام فریب میں کر لیا تھا اور تین نوجوانوں کو قادیان لے جانے کیلئے آمادہ بھی کر لیا تھا اور اس گاوں میں قادیانی مسجد بنانے کی پوری پلاننگ کر لی تھی اور صاحب زمین کو خاطر خواہ پیسہ دینے کی بات بھی طے ہوگئی تھی مگر بھلا ہو جمعیت اہلحدیث نیپال کا کہ مولانا محمد ہارون سلفی حفظہ اللہ کی کاوشیں رنگ لائیں انھوں نے مسجد بنوائی پھر قادیانیوں کو وہاں سے منہ کی کھانی پڑی۔ اسکے بعد دیوبندی حضرات نے ایک اجتماع منقعد کرکے ان تین گھروں کے افراد کو توبہ کروایا اور پھر سے کلمہ پڑھوایا ۔
اسی طرح سے ہمارے لمبنی علاقے میں بھی قادیانیوں نے پنجہ جمانے کی پرزور کوشس کی تھی مگر شیخ نسیم مدنی و دیگر علماء حفظہم اللہ کی غیر معمولی کاوشوں سے مکمل طور پر اس علاقے سے انکا صفایا ہوا۔ اللہ انھیں جزائے خیر دے۔
ابھی کچھ دنوں قبل فیس بوک پر عزیزم شمشاد عادل کا ایک پوسٹ نظر آیا جس میں انھوں نے فی الحال نیپال میں قادیانیت کے بڑھتے ہوئے قدم کو کچلنے کی اہل علم و قلم سے درخواست کی تھی۔ فجزاه الله خيرا۔
اسی دن سے میں نے نیپال میں قادیانیت کے تعلق سے مزید کچھ جاننے کی کوشش کی اور نیٹ پر سرچ کرنا شروع کیا تو مجھے Fleeing persecution, Ahmadi Muslims find safe haven in Nepal
کے نام سے ایک انگلش تحریر کاٹھمانڈو سے نکلنے والے انگلش جریدے " The Kathmandu Post" میں ملی جو 19 مئی 2019 میں شائع ہوئی تھی۔
اس پوسٹ کے مطابق تقریبا 1990 میں قادیانیت کا وجود نیپال میں ہوا اور انکی تنظیم "احمدیہ نیپال سنگھ" کے نام سے رجسٹرڈ بھی ہے اس تنظیم کا نمائندہ Sajeel Ghouri ہے جوکہ ٹویٹر وغیرہ پر بہت سرگرم ہے ۔ اسکا کہنا ہے کہ نیپال ہمارے لئے بہت سیف اور امن و امان کا مرکز ہے یہاں دھارمک اوتپیڑنا نہیں ہے ، یہ زیادہ تر پاکستان سے آئے ہیں اور اکثریت کاٹھمانڈو میں ہے جن میں ایک چوتھائی ریفیوجی کی حیثیت سے ہیں، جنکی تعداد 800 کے قریب ہے [ %0 .00008 ]۔
ایسے میں علماء و دعاة اور مسلم تنظموں کو چاہئے کہ اپنا کردار نمایا کرتے ہوئے میدان میں آئیں اور اس فتنے کو روکیں، حکمت عملی کیساتھ انکی مکمل سرکوبی کریں تاکہ سیدھے سادے ، غریب اور سادہ لوح مسلمانوں کو انکے فتنئہ ارتداد سے بچایاجا سکے۔ 06/07/2020
[صفي الله محمد الأنصاري]
Comments
Post a Comment