عربی جامعات و مدارس کے کچھ اہم ایشوز
■ عربی جامعات و مدارس کے کچھ اہم ایشوز ■
[ ✒ :صفی اللہ محمد الأنصاری ]
---------------------------------------------------
■ ہندوستان و نیپال کے عربي مدارس و جامعات میں صرف 12 ویں کلاس تک کچھ ایسے میجر سبجیکٹس کا اضافہ کرنا بیحد ضروری ہے جس سے شعبہ تخصص کے کسی بھی کلیہ اور فیکلٹی میں داخلہ ممکن ہو سکے، اگر ایسا ہو جائے تو ان شاء مسلم گھرانوں کے وہ تمام بچے عربی اور اسلامی مدرارس و جامعات سے جڑ جائیں گے جنکو بچپن ہی میں دینیات سے محروم کرکے انگلش میڈیم میں اڈمیٹ کروا دیا جاتا ہے صرف اسلئے کہ اگے جاکر بچہ کسی بھی کلیہ (سائنس/انجینیئرنگ /اقتصاد و ادارہ اور طب وغیرہ وغیرہ ) میں تخصص کر سکے ۔ کیونکہ مدارس میں ان چیزوں کا کوئی آپشن نہیں ہے ۔
■ واضح رہے کہ 12 (ہائیر سکنڈری/ انٹر میڈیت / عالمیت ) کے بعد عربی جامعات کے تخصصاتی شعبہ میں بالخصوص کلیہ الشریعہ، کلیہ الحدیت اور کلیہ الدعوہ واصول الدین میں صرف عربی اور اسلامی ہی مقررات و مواد رکھے جائیں البتہ انگلش کا اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔
جیسا کہ سعودی اور دیگر خلیجی ممالک میں تقریبا ایسے ہی مناہج ہیں جہاں پر ثانویہ عامہ (12 ) سے پہلے دینی اور عصری کا کوئی تصور ہی نہیں ہے البتہ 12 کے بعد ہر طالبعلم کسی بھی شعبہ میں اختصاص کر سکتا ہے ۔
■ آخری بات : شعبہ اختصاص(البکالوریس/ اللیسانس/الفضیلہ ) 3/4 سال کا ہونا چاہئے جسمیں باسانی تمام مقررات پڑھائے جاسکیں اور عالمی سطح کی ڈگری ہو جسے ہر کوئی اعتماد دینے پر مجبور ہو جائے نہ کہ صرف 1/2 سال کا دورہ کرواکر شہادہ میں خود ہی بی اے اور ایم اے لکھ کر طلبہ کو تھما دیا جائے چاہے اسکی کہیں پر ویلو ہو یا نہ ہو ۔
■ بنا بریں منتظمین مدارس و جامعات اور بالخصوص سعودی عرب کی یونیورسٹیوں سے متخرج تمام علماء و مفکرںن سے اس سلسلے میں تحقیق و توجیہ مطلوب ہے کیونکہ طلباء کا فیوچر اور مستقبل بہت اہم ہے، معیار تعلیم میں قدرے گڑبڑی کی وجہ سے کافی صعوبات و مشاکل کا مواجہا کرنا پڑتا ہے جو طلبہ دوسرے ملکوں میں مقیم ہیں انہیں اسکا بخوبی اندازہ ہے اور خود اپنے ہی ملک میں کافی مسائل ہیں ان چیزوں کو لیکر اور شاید یہی اسباب و وجوہات ہیں جنکی بنیاد پر نیپال میں عربی اداروں کی سرکاری سطح پر ابھی تک کوئی حیثیت حاصل نہیں ہے ۔ میرے آراء و اقتراحات سے اختلاف ضرور کیا جا سکتا ہے مگر اس سلسلے میں جو کمی و کوتاہی ہے اسکا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ 02/11/2017
---------------------------------------------------
[ ✒ :صفی اللہ محمد الأنصاری ]
---------------------------------------------------
■ ہندوستان و نیپال کے عربي مدارس و جامعات میں صرف 12 ویں کلاس تک کچھ ایسے میجر سبجیکٹس کا اضافہ کرنا بیحد ضروری ہے جس سے شعبہ تخصص کے کسی بھی کلیہ اور فیکلٹی میں داخلہ ممکن ہو سکے، اگر ایسا ہو جائے تو ان شاء مسلم گھرانوں کے وہ تمام بچے عربی اور اسلامی مدرارس و جامعات سے جڑ جائیں گے جنکو بچپن ہی میں دینیات سے محروم کرکے انگلش میڈیم میں اڈمیٹ کروا دیا جاتا ہے صرف اسلئے کہ اگے جاکر بچہ کسی بھی کلیہ (سائنس/انجینیئرنگ /اقتصاد و ادارہ اور طب وغیرہ وغیرہ ) میں تخصص کر سکے ۔ کیونکہ مدارس میں ان چیزوں کا کوئی آپشن نہیں ہے ۔
■ واضح رہے کہ 12 (ہائیر سکنڈری/ انٹر میڈیت / عالمیت ) کے بعد عربی جامعات کے تخصصاتی شعبہ میں بالخصوص کلیہ الشریعہ، کلیہ الحدیت اور کلیہ الدعوہ واصول الدین میں صرف عربی اور اسلامی ہی مقررات و مواد رکھے جائیں البتہ انگلش کا اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔
جیسا کہ سعودی اور دیگر خلیجی ممالک میں تقریبا ایسے ہی مناہج ہیں جہاں پر ثانویہ عامہ (12 ) سے پہلے دینی اور عصری کا کوئی تصور ہی نہیں ہے البتہ 12 کے بعد ہر طالبعلم کسی بھی شعبہ میں اختصاص کر سکتا ہے ۔
■ آخری بات : شعبہ اختصاص(البکالوریس/ اللیسانس/الفضیلہ ) 3/4 سال کا ہونا چاہئے جسمیں باسانی تمام مقررات پڑھائے جاسکیں اور عالمی سطح کی ڈگری ہو جسے ہر کوئی اعتماد دینے پر مجبور ہو جائے نہ کہ صرف 1/2 سال کا دورہ کرواکر شہادہ میں خود ہی بی اے اور ایم اے لکھ کر طلبہ کو تھما دیا جائے چاہے اسکی کہیں پر ویلو ہو یا نہ ہو ۔
■ بنا بریں منتظمین مدارس و جامعات اور بالخصوص سعودی عرب کی یونیورسٹیوں سے متخرج تمام علماء و مفکرںن سے اس سلسلے میں تحقیق و توجیہ مطلوب ہے کیونکہ طلباء کا فیوچر اور مستقبل بہت اہم ہے، معیار تعلیم میں قدرے گڑبڑی کی وجہ سے کافی صعوبات و مشاکل کا مواجہا کرنا پڑتا ہے جو طلبہ دوسرے ملکوں میں مقیم ہیں انہیں اسکا بخوبی اندازہ ہے اور خود اپنے ہی ملک میں کافی مسائل ہیں ان چیزوں کو لیکر اور شاید یہی اسباب و وجوہات ہیں جنکی بنیاد پر نیپال میں عربی اداروں کی سرکاری سطح پر ابھی تک کوئی حیثیت حاصل نہیں ہے ۔ میرے آراء و اقتراحات سے اختلاف ضرور کیا جا سکتا ہے مگر اس سلسلے میں جو کمی و کوتاہی ہے اسکا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ 02/11/2017
---------------------------------------------------
Comments
Post a Comment