آن لائن تعلیم کی مخالفت کیوں؟

آنلائن تعلیم کی مخالفت کیوں؟؟؟

[صفی اللہ محمد الأنصاري]
 ----------------------------------------------
 حالات و ظروف کی نزاکت کے پیش نظر کچھ مدارس و جامعات کی طرف سے آنلائن تعلیم اور کلاسیز کا بندوست کیا جا رہا ہے ، تدریب و ٹریننگ کا مرحلہ جاری ہے جو کہ اپنے آپ میں ایک قابل ستائش قدم ہے۔ مگر یہ وقتی کاوش درس نظامی کا مستقل متبادل نہیں ہے بلکہ انتہائی مجبوری اور کوئی آپشن نہ ہونے کی حالت میں ہے تاکہ Some thing is better than nothing [کچھ نا سے کچھ بہتر ہے] کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے طلبہ کے تعلیمی سلسلے کو برقرار رکھا جاسکے تآنکہ حکومت کی جانب سے کوئی مثبت ہدایت جاری کی جائے۔

مگر اسکے باوجود کچھ علماء و مشائخ اور دوست و احباب اسکی پرزور مخالفت کرتے نظر آرہے ہیں جو کہ میرے خیال سے درست پہلو نہیں ہے ۔ ہم مانتے ہیں کہ آنلائن تعلیم ہمارے مدارس و جامعات کے انوائرنمنٹ میں ایک دشوارکن مرحلہ ہے بلکہ پرائمری درجات کیلئے کچھ زیادہ ہی مسئلہ ہے، اور نٹورک کا پرابلم ایک الگ بلا ہے جس پر کچھ زایوں سے بات کی جا سکتی ہے۔ ہاں البتہ غریب فیملی کیلئے موبائل اور نٹ کا خرچہ بہت بڑا مسئلہ ہے ۔  لیکن جب حالات بد سے بد تر ہیں، بروقت تعلیمی معاھد و مراکز کے کھلنے کی کوئی امید نہیں ہے ایسے میں کچھ لوگ ہمت جٹا کر مسئلے کا کوئی حل نکالنا چاہتے ہیں اور طلبہ کو اداروں سے جوڑے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ انکا تعلیمی نقصان مزید نہ ہو ۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ ایسے وقت میں مطلقا انلائن کلاسیز کی مخالفت کرنا دانشمندی ہے ۔

ہندوستان میں انگریزوں کے تسلط کے بعد انکی مخالفت کرتے ہوئے ابتداء میں کچھ علماء نے انگریزی زبان کو حرام قرار دے دیا تھا جسکا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ اسلئے جذبات اور عجلت میں کوئی فیصلہ صادر کرنا حکمت و دانشمندی کا تقاضہ نہیں ہے ۔

جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر، نیپال ، جامعہ محمدیہ منصورہ اور جامعہ سلفیہ وغیرہ نے بھی آنلائن تعلیم کا اعلان کیا ہے ایسے نازک حالات میں ہم انکے اس اقدام کی بھر پور تائید اور قدر کرتے ہیں اور باقی جامعات کے منتظین سے اس قسم کی شروعات کی امید رکھتے ہیں ۔ ہمارے غیر مجرب اساتذہ کیلئے گرچہ یہ سلسلہ عجیب لگ رہا ہے اور ایک نئی چیز لگ رہی ہے مگر اسکی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایک زمانے سے اوپن یونیورسٹی اور آنلائن ایجوکیشن سے دنیا مستفید ہو رہی ہے اور خود سعودی عرب کی کئی یونیورسٹیوں میں " التعليم عن بعد" کا سسٹم موجود ہے اور ہم ہیں کہ ایسے حالات میں بھی شدت سے اسکی مخالفت کرنے پر مصر ہیں۔

دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم ہمارے کچھ نیپالی علماء  و طلباء ZOOM کے ذریعہ فری "آنلائن نیپالی لانگویج" سیکھ رہے ہیں جو کہ محترم عرفان پوکھریل کی ایک بہترین اور کامیاب کوشش ہے، اسی طرح سے بہت سارے علماء و حفاظ بچوں کو آنلائن ایجوکیشن اور حفظ قرآن کیلئے جوڑ رہے ہیں بطور مثال شیخ پرویز عالم مدنی حفظہ اللہ کی فیسبوک فروفائل کا وزٹ کر سکتے ہیں جسمیں حافظ مطیع اللہ سلفی کے ذریعہ بچوں کی تعلیمی مشق کے زوم ویڈیوز موجود ہیں ۔

اور ویسے بھی آجکل میٹیگیں ، کانفرنسیز، ڈیبیٹس اور مشاعرے وغیرہ آنلائن ہو رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حالات و ظروف کے اعتبار سے آنلائن تعلیم وقت کی اہم ضرورت اور بہت بڑا چیلنج ہے جسکا مقابلہ کرنے ہی میں بہتری اور کامیابی ہے ، ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چھوٹے بچوں کو گھر کے ذمہ داران خود پڑھائیں یا ٹیوشن وغیرہ کے ذریعہ کسی کے سپرد کردیں اور بڑے بچوں کو آنلائن ایجوکیشن سے جوڑے رکھیں جب تک حالات سازگار نہیں ہوتے ۔ اسلئے آنلائن تعلیم کی افادیت سے انکار اور بیجا مخالفت سے بچنا چاہئے اور اگر اعتراض و مخالفت کرنی ہی ہے تو سرکار سے کریں  جس نے معابد و مراکز کے علاوہ تمام چیزوں کے افتتاح کی تقریبا اجازت دے دی ہے ۔ نہ کہ ان اداروں کی مخالفت کریں جو ان نامساعد حالات میں بھی کچھ کرنے کا ہمت و جذبہ رکھتے ہیں۔ 20/072020

 -

Comments

Popular posts from this blog

نیپالی زبان اور مدارس اسلامیہ

نیپال میں بدھسٹ یونیورسٹی کا قیام اور اسلامک یونیورسٹی سے چشم پوشی

ترجمه مختصرة