میراث کے مسئلے پر اسقدر خاموشی کیوں ؟

[سلسلہ سماجیات، 4]

■ میراث کے مسئلے پر اسقدر خاموشی کیوں؟؟؟■
           
[✒ : صفی اللہ محمد الأنصاری]
                       --------------------------------------------------

■ مسئلہ میراث ایک بہت ہی اہم اور حساس موضوع ہے جسکی فرضیت و وصیت اللہ کی جانب سے ہے سورہ نساء میں بڑی تفصیل سے اسکا ذکر موجود ہے جسکے نفاذ پر جنت کی بشارت دی گئی ہے اور عدم نفاذ و ظلم زیادتی اور حق تلفی کی صورت میں بڑی سخت وعید آئی ہے زمانہ جاہلیت میں لوگ لڑکوں کو ترکے میں حصہ دیتے تھے مگر لڑکیوں کو حق وراثت سے محروم رکھتے تھے اللہ تعالی نے انکے اس قبیح اور ظالمانہ فعل کو رد کرتے ہوئے فرمایا " لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا (النسا ء/7).

■ ذرا غور کریں کس طرح اللہ تعالی نے دور جاہلیت کے رسم و رواج اور قبائلی عادات و تقالید کو ختم کرتے ہوئے مرد و عورت دونوں کیلئے والدین اور دیگر اقرباء کے مال متروک میں حصہ مقرر کیا ہے اور چھوڑا ہوا مال و دولت ، روپیہ پیسہ ، جائداد و پراپرٹی خواہ کم ہو یا زیادہ یہ اللہ کی طرف سے فرض کیا ہوا ہے ۔ اسی طرح سے اللہ تعالی نے فرمایا " يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ" (النساء/11). یعنی اللہ تعالی تمہیں اولاد کے سلسلے میں وصیت کرتا ہے کہ (ترکہ میں ) ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے ۔

■ قارئیں کرام: قرآن کریم کے اسقدر واضح احکام کے باوجود ہمارے مسلم معاشرے بالخصوص نیپال و شمالی ہند میں تقسیم میراث اور انتقال ملکیت مفقود ہے دور دور تک کوئی تصور نہیں۔ پوری جائداد و پراپڑتی صرف لڑکوں کے درمیان تقسیم ہوتی ہے بچیوں اور بہنوں کے ساتھ ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں انکی وراثت کو ہڑپ کر سنگین جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے ۔ (الا من رحم ربي) کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی ہے کہ ہم قرآن کے بعض حصوں پر عمل کرتے ہیں اور بعض حصوں سے بے رخی اور بے اعتنائی برتتے ہیں؟ کیا یہ نفاق نہیں ہے ؟ کیا اللہ کے احکام کی پامالی نہیں ہے ؟ کیا ہم میں سے اکثر ظالم نہیں ہیں؟ کیا زمانہ جاہلیت کا تصور ہمارے اندر اب بھی موجود نہیں ہے؟ آخر یہ امتیاز و تفریق اور بھید بھاو کیوں؟

■ اللہ تعالی نے ہماری غیرت کو جھنجھوڑتے ہوئے بہت ہی ایموشنل اور جذباتی بات کہہ رہا ہے " وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (النساء/9) اور چاہیئے کہ وہ اس بات سے ڈریں کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے ننھے ننھے ناتواں بچے چھوڑ جاتے جنکے ضائع ہو جانے کا اندیشہ رہتا (اور انکے ساتھ ظلم و زیادتی ہونے اور ترکے میں حصہ نہ ملنے کا خوف رہتا تو انکی چاہت کیا ہوتی)  پس اللہ سے ڈر کر جچی تلی بات کہا کریں ۔

■ قارئین کرام! جو لوگ باپ کے مرنے کے بعد اسکی بیٹیوں یعنی اپنی یتیم بہنوں پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں اور انکے مال کو ہڑپ کرکے کھا جاتے ہیں انکے لئے بہت سخت وعید ہے اللہ تعالی فرماتا ہے " إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (النساء/10) جو لوگ ناحق یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔

■ آگے کی آیتوں میں اللہ تعالی نے تقسیم میراث و فرائض کا طریقہ اور اصحاب الفروض والعصبات کا مفصل ذکر کرنے کے بعد فرمایا " تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ * وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ (النساء 14/13) کہ یہ اللہ کے حدود اور باونڈریز ہیں جو اللہ و رسول کے فرمان پر عمل کریگا وہ ایسی جنت میں داخل ہوگا جسکے نیچے نہریں جاری ہیں اور ہمیشہ ہمیش اس میں رہیں گے یقینا یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ اور جو اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کرے اور اسکی مقررہ حدوں سے آگے نکلے (باونڈریز کراس کرے) اسے وہ جہنم میں ڈال دیگا جس میں وہ ہمیشہ رہیگا اور اسکے لئے رسواکن عذاب ہے۔

■ ذرا ملاحظہ فرمائیں میراث کے عدم نفاذ اور ظلم و زیادتی کی صورت میں کتنا دردناک عذاب ہے ،کس قدر وعید اور دھمکی ہے ۔ روزہ ،نماز ، حج اور زکاة کس کام کے ہیں۔ بھلا وہ شخص کیسے کامیاب ہو سکتا ہے جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے ، اسکی وصیت کا پاس و لحاظ نہ کرے اور یتیموں کے مال کو ناجائز طریقے سے کھاجائے!!!۔ سورہ فجر میں اللہ تعالی نے انسانوں کو جزر و توبیخ کرتے اور ڈانٹتے پھٹکارتے ہوئے فرمایا:- "وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّا * وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا (الفجر 20/19) کہ تم میراث کو سمیٹ سمیٹ کر (غلط طریقے سے) کھاتے ہو اور مال ودولت کو حد سے زیادہ پسند کرتے ہو ۔

■ مذکورہ بالا تمام نصوص قرانیہ سے اس بات کا بین ثبوت ملا کہ احکام میراث اللہ کی جانب سے فرض کردہ ایک وصیت ہے جسکا نفاذ ہر حال میں واجب اور لازم ہے اسکی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس مسئلے کو تفصیلا بیان کیا ہے جبکہ دوسرے احکام روزہ نماز حج زکاة وغیرہ کو اجمالا ہی بیان کرنے پر اکتفاء کیا ہے جنکی شرح اور تفصیل احادیث رسول میں ملتی ہے ۔ اللہ تعالی نے عورتوں کی اہمیت کے پیش نظر مکمل ایک سورت ہی"سورة النساء" کے نام سے نازل فرمایا اور مسئلہ میراث کو مستقل "علم فرائض" کے نام سے ایک علم قرار دیا گیا ۔ احادیث کی کتابوں میں "کتاب الفرائض" اور اسکے تحت مختلف ابواب قائم کرکے بڑی لمبی چوڑی تفصیلی بحث موجود ہے ۔ علم فرائض کو مدارس میں ایک فن اور مادہ کی حیثیت سے پڑھایا بھی جاتا ہے ۔ مگر یہ علم مدارس میں صرف پڑھنے پڑھانے کی حد تک رہ گیا ہے عملی اور تطبیقی طور پر کوئی توجہ نہیں،  کوئی اس مسئلے پر بات کرنے کیلئے تیار نہیں پورا مسلم معاشرہ خاموش نظر آرہا ہے اور سب سے حیرت و استعجاب کی بات تو یہ ہے کہ علماء کا گروہ بھی اس موضوع پر چپی سادھے ہوئے ہے ہر کوئی اس مسئلے پر بولنے سے کترا رہا ہے آخر کیا وجہ ہے اسقدر خاموشی کیوں؟؟؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے بہت بھاری کوئسچن مارک ہے جسکا جواب ہمیں بہرحال دینا ہے ۔

■ معاف کیجیئے گا آج ہر طرف اصلاح معاشرہ،  اصلاح سماج ،اصلاح امت ، قرآن کی عظمت ، عورتوں کے حقوق اورجہیز کی لعنت وغیرہ کے موضوع پر بڑے بڑے جلسے ، سیمنار اور کانفرنسز منعقد کئے جارہے ہیں لاکھوں کروڑوں روپئے خرچ کئے جارہے ہیں ، مگر مسئلہ میراث پر کوئی کانفرنس نہیں ،کوئی جسلہ و سیمنار نہیں ، کوئی تحریک اور کوئی کمپین و مہم نہیں۔ کیا حاجی کیا نمازی کیا مولوی ، علامہ اور شیخ سب کی زبانیں گونگی نظر آرہی ہیں (الا ماشاء الله) ۔

■ قابل مبارکباد ہیں وہ لوگ جو اس مسئلے پر کھل کر بولتے ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔ ہم عربوں کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے ہیں مگر دیکھیں تو انکے یہاں ابھی بھی اسلامی طریقے سے تقسیم میراث کا قانون مکمل طریقے سے باقی ہے عورتوں کی بڑی عزت و توقیر ہے ۔ جبکہ بر صغیر کے کچھ ہی علاقوں اور بعض ہی دینی غیرت و حمیت رکھنے والوں کے اندر قانون میراث زندہ ہے اللہ ایسے جیالوں کو جزائے خیر دے اور انکے ذریعہ تمام مردہ دلوں کو زندہ کرے ۔

■ میرے اسلامی بھائیو ! ہم سب کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا ،حرص و طمع ، ظلم و زیادتی اور ہندوانہ رسم و رواج اور ماحول و طریقے سے نکل کر قانون میراث کو مسلم سماج میں عام کرنا ہوگا ۔ کتنے گاوں دیہات کے بزرگ طبقے کے لوگ تو ابھی جانتے ہی نہیں ہیں کہ میراث کیا ہے انھیں پتہ ہی نہیں ہے کہ مال متروک میں بچیوں کا بھی حق ہے ۔ کیونکہ اس مسئلے پر منبر و محراب سے کوئی آواز ہی نہیں آتی ، خطبہ جمعہ ،جلسوں اور پروگراموں میں اس موضوع پر کوئی خطاب ہی نہیں ہوتا۔ کیا اس پر اللہ تعالی باز پرس نہیں کریگا ؟ کیا ہم سب مسؤول و ذمہ دار نہیں ہیں ؟

■ محترم قارئیں! کتنے سلیقے اور صفائی سے کہہ دیا جاتا  ہے کہ ہماری بہنوں نے معاف کر دیا ہے انھیں میراث میں حصہ نہیں چاہئیے ۔ واقعی بہنیں ایسا ہی کہتی ہیں کیونکہ ماحول ہی اس طرح کا بن گیا ہے بیٹیوں اور بہنوں کے مابین میراث کے لینے دینے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ایک شیء معیوب سمجھا جانے لگا ہے ۔ تو بیچاری یتیم بہنیں کیسے زبان کھول سکتی ہیں کہ ہاں ہمیں بھی باپ کی وراثت میں حصہ چاہئے کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ اگر مطالبہ کرلیا تو گاہے بگاہےجو بھائیوں کے گھروں پر آنے جانے کا سلسلہ ہے ختم ہو جائگا، عیدین کے موقع پر گفٹ و تحائف اور تہواریوں کا سسٹم بند ہو جائیگا،  بھائی نالاں ہو جائینگے اور بھابھیاں تاحیات ناراض ہو جائینگی اسلئے مجبوری میں بیچاریاں منفی میں گردن ہلا دیتی ہیں اور کہہ دیتی ہیں کہ رہنے دیجئے بھائی ہمیں نہیں چاہئے ہم نے معاف کر دیا۔ مگر ہمیں سوچنا چاہئے کہ آخر بہنیں ہی کیوں معاف کرتی ہیں آج تک کسی بھائی نے کیوں نہیں معاف کیا ؟ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ انتقال ملکیت جبری ہوتی ہے فارمالٹی کے طور پر مجبوری میں نہ کہہ دینے سے معاف نہیں ہوتی ۔

■ کہنے کا مطلب یہ ہیکہ میراث کا تصور اسقدر ذہنوں سے نکل گیا ہے کہ بچیاں اور بہنیں اپنا ہی حق لینے میں شرم محسوس کر رہی ہیں ۔ اور ستم ظریفی تو یہ ہیکہ اگر ہمارے یہاں بیٹوں کی تعداد کتنی بھی زیادہ ہو حتی کہ دس یا اس سے بھی متجاوز تو میراث میں سب کےحصوں کا حساب و کتاب لگایا جاتا ہے مگر اسی لسٹ میں ایک بیٹی ہو تو وہ بیچاری محروم کر دی جاتی ہے آخر ایسا کیوں ہے؟ بچیاں کب تک مظلومیت و مقہوریت اور محرومیت کا شکار ہوتی رہیں گی ؟ کب تک انکے ساتھ نا انصافی ہوتی رہے گی؟ ظلم کسی بھی سطح پر ہو بہت ہی بھیانک جرم ہے اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا اپنے بندوں پر ظلم کو حرام قرار دیا ہے ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے مسلم شریف کی ایک حدیث قدسی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے قول کو نقل کیا ہے " يا عبادي إني حرمت الظلم على نفسي ، وجعلته بينكم محرما فلا تظالموا ۔۔۔۔۔۔" {رواہ مسلم۔}اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور تمہارے درمیان بھی اسے حرام کیا ہے اسلئے تم ایک دوسرے کے اوپر ظلم نہ کرو ۔

■ بظاہر تو ماشاء الله ہملوگ بچیوں سے بہت لاڈ و پیار کرتے ہیں طعام و شراب ، قیام و رہائش اور کسوة و ملابس غرضیکہ ضروریات زندگی کی تمام سہولتیں اور فیسلٹیاں مہیا کرتے ہیں یہاں تک کہ شادی و بیاہ میں کافی اسراف و فضول سے کام لیتے ہیں جہیز کے نام پر گاڑیاں اور لاکھوں روپئے ادا کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں مگر میراث کے نام سے ضرور چڑھتے ہیں بعض لوگوں کے تو زمین و جائداد تک بھی بک جاتے ہیں یا گروی پر رکھ دئے جاتے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ بچیوں کو میراث سے محروم کرنے کے پاداش میں اللہ تعالی نے جہیز جیسی بھاری بوجھ کو ہمارے اوپر بطور عذاب مسلط کردیا ہے ؟ کہیں یہ سائڈ افیکٹ تو نہیں ہے ؟

■ ذرا متانت و سنجیدگی اور عدل و انصاف سے بتائیں کہ کیا جہیز میراث کا متبادل ہے ؟ کیا جہیز کی لعنت اور بوجھ کی وجہ سے میراث کی فرضیت ساقط ہو جائے گی؟ کیا جہیز بھی موانع ارث میں سے ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ ہم نے تو اپنے پیروں میں خود کلہاڑی مار لیا ہے۔  موانع میراث کے سلسلے میں حدیث میں آتا ہے " لا يرث المسلم الكافر، ولا الكافر المسلم" (متفق عليه)
یعنی مسلم کافر کا وارث نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کافر مسلم کا وارث ہو سکتا۔  مطلب یہ کہ اگر میت مسلم ہے مگر اصحاب الفروض میں سے کوئی اپنے مذہب کو تبدیل کرکے کافر ہوجائے تو وراثت سے محروم ہوگا وھکذا العکس ۔ اسی طرح سے قاتل کے بارے میں بھی حدیث میں آتا ہے " لا يرث القاتل شيئا. رواه أبو داود وأحمد  وصححه الألباني. وفي رواية: ليس لقاتل ميراث. وفي رواية: ليس لقاتل شيء". یعنی اگر کسی نے اپنے باپ یا بھائی وغیرہ کو قتل کردیا تو اسکی وراثت سے محروم ہوگا ۔  اور ایسے ہی رق و مملوک کے سلسے میں آتا ہے بہر کیف یہ ایک طویل بحث ہے جو ایک الگ موضوع کا متقاضی ہے ۔ یہاں ثابت ہوا کہ جہیز موانع میراث میں سے نہیں ہے اور نہ ہی اسکا متبادل  ہے بلکہ خالص ہندوانہ رسم و رواج اور طور طریقہ ہے کیونکہ انکے یہاں میراث کا کوئی تصور نہیں ہے اسلئے جہیز کے طور پر کچھ لے دیکر بچیوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ چونکہ ہمارے یہاں ہندو مسلم  ایک ہی ساتھ رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی تہذیب و کلچر سے ہم آہنگ ہوتے رہتے ہیں اس لئے یہ طوفان اور سیلاب دھیرے دھیرے مسلمانوں کے درمیان بھی موج تلاطم کی شکل اختیار کر گیا جس پر قدغن لگانا بہت ضروری ہے۔

■ خلاصہ کلام اینکہ میراث کا عدم نفاذ ایک سنگین جرم اور عظیم گناہ ہے جس پر خاموشی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے بالخصوص علماء کی خاموشی سم قاتل اور ہلاکت سے کم نہیں ہے اسلئے ہم سب کو اپنا اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور اللہ کے عذاب و پکڑ سے ڈرنا چاہئے۔ تو آئیے ہم سب ملکر عہد کریں کہ میراث کے قانون کو عام کریں گے، بہنوں، بیٹوں پر ظلم و زیادتی کے روک تھام کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور اس مسئلے پر خاموشی کو کسی بھی حال میں برداشت نہیں کریں گے۔  07/02/2018
-----------------------------------------------

Comments

Popular posts from this blog

نیپالی زبان اور مدارس اسلامیہ

نیپال میں بدھسٹ یونیورسٹی کا قیام اور اسلامک یونیورسٹی سے چشم پوشی

ترجمه مختصرة