نیپال کی یونیورسیٹیوں میں عربک ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے کی ضرورت
نیپال کی یونیورسیٹیوں میں عربک ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے کی ضرورت
----------------------------
[ صفی اللہ محمد الأنصاری:✒]
بر وقت الحمد للہ ہمارے ملک نیپال میں کافی حد تک تعلیمی بیداری دیکھنے کو مل رہی ہے مدارس اور اس سے متعلق تمام ایشوز کو مختلف جھات سے جس انداز میں اٹھایا گیا ہے واقعی قابل داد و تحسین ہے۔ اللہ جملہ احباب کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور جلد از جلد ایوان حکومت سے مسلمانوں کے مطالبات کی خوشخبری آئے اور برسوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہو ۔
ہم نیپالی مسلمانوں کو تعلیم اور مدارس کے متعلق سرکار سے جہاں بہت سارے مطالبات درکار ہیں وہیں نیپال کے تمام ٹاپ یونیورسٹیوں میں عربک ڈیپارٹمنٹ کے قیام کا بھی مطالبہ کرنا چائیے اور یہ آئینی حقوق میں سے ہے ۔ اگر ایسا ہو جائے تو سب کا بالعموم فائدہ ہوگا اور عربی مدارس و جامعات سے منسلک تمام لوگوں کا بالخصوص فائدہ ہوگا بایں طور کہ مدارس و جامعات کو الحاق و معادلہ کا زریں موقع نصیب ہوگا جس سے بہت سارے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ مگر اسکے لئے نیپال کے تمام مسلمانوں کو ملی مفاد کے خاطر اک آواز ہونا پڑیگا ورنہ ہر کوئی اپنی اپنی ڈفلی بجاتے اور چیخیں مارتے رہ جائیگا اور حکومت ٹس سے مس بھی نہیں ہوگی۔
یونیورسٹیوں میں عربک ڈیپارٹمنٹ قائم کروانے کیلئے ہمیں لوجیکل سوال اٹھانا چاہیئےکہ یونیورسٹیوں کے لانگویج ڈیپارٹمنٹ میں تقریبا تمام زبانوں کا شعبہ موجود ہے جیسے ہندی ، کورین ، جاپانی، چائنز، فرانسیس وغیرہ وغیرہ مگر عربی اور اردو ناپید ہے (سوائے بعض بنیادی کورسیز کے) جبکہ روزی روٹی کیلئے وطن چھوڑ کر باہر جانے والوں میں تقریبا پچاس فیصد سے زائد نیپالی خلیج کا سفر کرتے ہیں اور خلیج کی زبان عربی ہے کیا انھیں عربی علوم و فنون میں مہارت تامہ کیلئے ملک کی یونیوسٹیوں میں پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے؟ کوریا اور جاپان وغیرہ جانے والوں کے کیلئے متعلقہ شعبے موجود ہیں مگر عرب جانے والوں کیلئے؟
نیپال سرکار کی یہ ہمیشہ سے شکایت رہی ہے کہ مدارس کے طلبہ نے ملک کیلئے کچھ نہیں کیا انکے کچھ کارنامے نہیں ہیں مگر شاید اسے پتہ نہیں کہ خلیجی ممالک میں انھیں مدارس سے نکلے ہوئے جیالوں نے نیپال کا نام روشن کیا ہوا ہے ۔ نیپال کے کسی بھی یونیورسٹی سے نکلنے والا کوئی بھی گریجویٹ عربک میں زیرو کے مانند ہوتا ہے مگر یہی طلبہ مدارس دیگر تمام شعبوں کے ساتھ ساتھ عربک اور اس سے ریلیٹڈ تمام شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں اور اس سے ملک کا سر اونچا ہوتا ہے اسلئے نیپال سرکار کو چاہیئے کہ بلا کسی تامل فوری طور پر ہر یونیورسٹی میں عربک اور اردو وغیرہ کا شعبہ قائم کرے پھر عربی مدارس کے طلبہ کا کمال دیکھے یہی طلبہ ان شاء الله نیپال کی تمام یونیورسٹیوں کے عربی شعبہ میں پروفیسر بنیں گے اور الحمد للہ کتنے ایسے ذہین اور ہونہار طلبہ ہندوستان اور سعودی وغیرہ کی یونیورسیٹیوں سے گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی ہولڈر موجود ہیں مگر اپنے ہی ملک میں سرکاری سطح پر اجنبی بنے ہوئے ہیں ۔ حکومت انھیں انکا جائز مقام دے پھر انکے ٹائلنسی اور خدمات کا معترف خود بخود ہو جائیگی۔ 12/04/2019
---------------------------------------
----------------------------
[ صفی اللہ محمد الأنصاری:✒]
بر وقت الحمد للہ ہمارے ملک نیپال میں کافی حد تک تعلیمی بیداری دیکھنے کو مل رہی ہے مدارس اور اس سے متعلق تمام ایشوز کو مختلف جھات سے جس انداز میں اٹھایا گیا ہے واقعی قابل داد و تحسین ہے۔ اللہ جملہ احباب کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور جلد از جلد ایوان حکومت سے مسلمانوں کے مطالبات کی خوشخبری آئے اور برسوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہو ۔
ہم نیپالی مسلمانوں کو تعلیم اور مدارس کے متعلق سرکار سے جہاں بہت سارے مطالبات درکار ہیں وہیں نیپال کے تمام ٹاپ یونیورسٹیوں میں عربک ڈیپارٹمنٹ کے قیام کا بھی مطالبہ کرنا چائیے اور یہ آئینی حقوق میں سے ہے ۔ اگر ایسا ہو جائے تو سب کا بالعموم فائدہ ہوگا اور عربی مدارس و جامعات سے منسلک تمام لوگوں کا بالخصوص فائدہ ہوگا بایں طور کہ مدارس و جامعات کو الحاق و معادلہ کا زریں موقع نصیب ہوگا جس سے بہت سارے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ مگر اسکے لئے نیپال کے تمام مسلمانوں کو ملی مفاد کے خاطر اک آواز ہونا پڑیگا ورنہ ہر کوئی اپنی اپنی ڈفلی بجاتے اور چیخیں مارتے رہ جائیگا اور حکومت ٹس سے مس بھی نہیں ہوگی۔
یونیورسٹیوں میں عربک ڈیپارٹمنٹ قائم کروانے کیلئے ہمیں لوجیکل سوال اٹھانا چاہیئےکہ یونیورسٹیوں کے لانگویج ڈیپارٹمنٹ میں تقریبا تمام زبانوں کا شعبہ موجود ہے جیسے ہندی ، کورین ، جاپانی، چائنز، فرانسیس وغیرہ وغیرہ مگر عربی اور اردو ناپید ہے (سوائے بعض بنیادی کورسیز کے) جبکہ روزی روٹی کیلئے وطن چھوڑ کر باہر جانے والوں میں تقریبا پچاس فیصد سے زائد نیپالی خلیج کا سفر کرتے ہیں اور خلیج کی زبان عربی ہے کیا انھیں عربی علوم و فنون میں مہارت تامہ کیلئے ملک کی یونیوسٹیوں میں پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے؟ کوریا اور جاپان وغیرہ جانے والوں کے کیلئے متعلقہ شعبے موجود ہیں مگر عرب جانے والوں کیلئے؟
نیپال سرکار کی یہ ہمیشہ سے شکایت رہی ہے کہ مدارس کے طلبہ نے ملک کیلئے کچھ نہیں کیا انکے کچھ کارنامے نہیں ہیں مگر شاید اسے پتہ نہیں کہ خلیجی ممالک میں انھیں مدارس سے نکلے ہوئے جیالوں نے نیپال کا نام روشن کیا ہوا ہے ۔ نیپال کے کسی بھی یونیورسٹی سے نکلنے والا کوئی بھی گریجویٹ عربک میں زیرو کے مانند ہوتا ہے مگر یہی طلبہ مدارس دیگر تمام شعبوں کے ساتھ ساتھ عربک اور اس سے ریلیٹڈ تمام شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں اور اس سے ملک کا سر اونچا ہوتا ہے اسلئے نیپال سرکار کو چاہیئے کہ بلا کسی تامل فوری طور پر ہر یونیورسٹی میں عربک اور اردو وغیرہ کا شعبہ قائم کرے پھر عربی مدارس کے طلبہ کا کمال دیکھے یہی طلبہ ان شاء الله نیپال کی تمام یونیورسٹیوں کے عربی شعبہ میں پروفیسر بنیں گے اور الحمد للہ کتنے ایسے ذہین اور ہونہار طلبہ ہندوستان اور سعودی وغیرہ کی یونیورسیٹیوں سے گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی ہولڈر موجود ہیں مگر اپنے ہی ملک میں سرکاری سطح پر اجنبی بنے ہوئے ہیں ۔ حکومت انھیں انکا جائز مقام دے پھر انکے ٹائلنسی اور خدمات کا معترف خود بخود ہو جائیگی۔ 12/04/2019
---------------------------------------
Comments
Post a Comment